بیسویں صدی میں عالم اسلام کی زبوں حالی کےخلاف مختلف فکری شخصیات منظر عام پر آئیں جنہوں نے دین اسلام کو عصری تقاضوں کے مطابق پیش کیا یوں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا جس کے پیشرو سید جمال الدین افغانی ہیں اور اسی تسلسل میں دنیا کے مختلف خطوں میں ایسی فکری شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے مختلف میدانوں میں اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ جن میں حسن البنا،سید قطب،محمدعبدہ،امام خمینی،شہید مطہری،سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسی مایہ ناز شخصیات شامل ہیں۔
انہی میں سے ایک اہم شخصیت سید محمد باقر الصدرؒہیں، جنہوں نے عراق کی سرزمین پر اپنی تحریک کا آغاز کیا لیکن ان کے افکار نے اسلامی دنیا سے نظریاتی ،اجتماعی اور سیاسی جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔باقر الصدرؒ نے ایک علمی اور مذہبی خاندان میں آنکھ کھولی اور بلوغت سے پہلے ہی علمی مدارج طے کر کے ابتدائے شباب میں ہی اسلامی نظریہ پردازوں کی صف میں اپنی جگہ بنالی۔
آپ نے ایسے زمانے میں آنکھ کھولی جہاں دنیا دوبلاکوں (سرمایہ دارانہ وکمیونزم ) میں تقسیم تھی ، عرب دنیا میں قومیت کا نظریہ بھی اپنے عروج پر تھااور اسلام کو صرف بعض رسومات کا مجموعہ قرار دے کر خود مسلمانوں میں اس دین کے مخالف پیدا ہونے لگے تھے، جبکہ مسلمانوں کا بڑاطبقہ دین اسلام کو ہماری پسماندگی کا سبب قراردے کر مشرق ومغرب کے باطل نظاموں کو بشریت کے لیے نجات بخش سمجھتا تھا۔
سید محمد باقرالصدرؒ نے اسلامی علوم پر مکمل دسترس حاصل کرنے کے بعد اسلامی فکر کو زندہ کرنے اور امت مسلمہ پراسکی عظمت اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جدوجہد کا رخ ان موضوعات اور اجتماعی کاموں کی طرف کرلیا،جن سے اسلامی معاشرہ روبرو تھا۔
عراق کی سرز مین پر مارکسزم اور دیگر مادی مکاتب اپنے نظریات پھیلا رہے تھے اور خود کو بشریت کا نجات دہندہ قرار دے رہے تھے تو دوسری طرف حوزہ ہائے علمیہ اوراسکے نتیجے میں اسلامی معاشرہ پرخمود و جمود کی کیفیت طاری تھی اور دشمنان اسلام کی جانب سے پیش کرنے والے مشرق ومغرب کے جدید نظریا ت ، شبہات اور انحرافی نظریات کامقابلہ کرنے سے عاجز تھے۔ جبکہ لاکھوں جوان اور تعلیم یافتہ افراد ان کے جال میں پھنس کر اسلام سے دور ہورہے تھے۔ ایسے حالات میں سید محمد باقر الصدرؒ نے دینی علوم جیسے تفسیرقرآن،تاریخ،سیرت،اسلامی پیغام،فقہ، اصول اور کلام کو جدید انداز میں پیش کیا ساتھ ہی دنیا میں رائج نظریات جیسے فلسفہ،اقتصاد،بینکنگ سسٹم،سود،سیاسی نظام،منطق،آزادی،عدالت اور دیگر موضوعات پر بھی مدلل تصنیفات پیش کیں، آپ نے اپنی فکری وعلمی کاوشوں کے ذریعے التقاطی اور انحرافی نظریات کے ابطال کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو پسماندگی سے نکالنے میں اہم کردار اد کیا۔
سید محمد باقر الصدرؒ کی شخصیت،افکار اور خدمات پر عربی و فارسی اور انگریزی زبانوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن اردو زبان میں آپ کی چند کتابوں کے ترجمہ کے علاوہ اب تک کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا، اس وجہ سے ہمارا معاشرہ آپ کی فکری،علمی ، اجتماعی اور سیاسی جدوجہد سے آگاہ نہیں ہے۔ آپ کی فکری وعلمی سرمایہ اور افکار سے الہام لیتے ہوئے ہم اپنے معاشرے میں بیداری،اصلاح اور انحرافی مکاتب سے مقابلے کے لئے قدم اٹھا سکتے ہیں۔
آپ کے نظریات، اسلام کے عقیدتی،فکری، اجتماعی، ثقافتی، تاریخی اور سیاسی پہلوؤں پر مشتمل ہیں۔ ان سے آشنائی اور مطالعہ ایک عالم،محقق اورداعی دین کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔
افکار باقر الصدر:
سید محمد باقرالصدرؒ نے مختلف موضوعات پر نظریہ پردازی کی ہے ۔ جن موضوعات پر بھی قلم اٹھا یا ہے اس میں جدید اور محکم نظریات پیش کیے ہیں ۔ آپ کے افکار کی خصوصیات پر اب تک بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اسلام کو ایک آفاقی اور نجات دہند مکتب کے طور پر پیش کرنے کے لیے آپ نے تمام جدید مکاتب کا دقت سے مطالعہ کر کے مختلف اسلامی موضوعات پر جدید افکار پیش کیا۔
باقر صدرؒ کے افکار کی نمایاں خصوصیات:
آپ نے جو افکار پیش کیے وہ اصولوں کی روشنی میں احیائے اسلامی، اسلام کو ایک سسٹم اور نجات بخش مکتب کے طور پر پیش کرنا تھا لیکن آپ کا اسلوب اس دور کے مذہبی علما اور دینی مدارس کے طریقہ اور روش کے برخلاف جدید وجامع اور دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق تھی۔
1۔اسلامی تصور کائنات کو خاص انداز میں پیش جس میں اصالت عقل تمام افکار میں نمایاں ہے۔
2۔نظریہ پردازی: تمام علوم میں ایک طرح کی نظریہ پردازی اور نئے افکا ر نظر آتے ہیں۔
3۔اسلام کو کامل نظام زندگی کے طور پر پیش کرنا۔آپ اسلام کے فکری،سیاسی،اقتصادی ،ثقافتی تمام پہلووں کو ایک ہی بدن کے مختلف اجزا قرار دیتے اور ایک دوسرے سے مربوط سمجھتے تھے۔اس طرح آپ نے کائنات اور زندگی،کے بارے میں اسلام کا نکتہ نظر،انفرادی اور اجتماعی نظام میں ایک روش کے طور پر پیش کیا۔
4۔اسلامی میراث پر ناقدانہ نظررکھنا۔آپ نے مکتب اجتہاد کے ایک بڑے فقیہ ہونے کے ناطے مختلف علوم میں جدید نظریات پیش کیے۔ آپ نے اسلام اور امت کے مصالح کے پیش نظر کسی بھی قسم کی تنقید اور اسلامی علوم میں سابقہ طریقہ کار اور جمود کے بارے میں اختلاف نظر سے گریز نہیں کیا۔
5۔عالم اسلام کے اکثر علما اگرچہ اسلام کے اصول وفروع میں اعلیٰ درجہ پر فائز ہوتے ہیں مگر زمانے کے دیکر مکاتب اور عصری افکار سے ناآشنا ہوتے ہیں اس لیے وہ جدید شبہات کا جواب دینے سے عاجز ہوتے ہیں لیکن باقر الصدرؒ نے اپنے دور کے مغربی نطاموں اور امت مسلمہ میں موجود مختلف افکار کا دقت سے مطالعہ کیا اور ان پر عبور حاصل کیا۔
6۔معاشرے سے ارتباط:آپ کاشمار ان شخصیات میں سے نہیں جومعاشرے سے کٹ کر صرف تحقیقات کرتی ہیں، بلکہ آپ ایک فقیہ کے عنوان سے اجتماعی مسئولیت کو بھی واجب سمجھتے تھے۔ اس لیے آپ نے سخت حالات کامقابلہ کیا اور ہر قسم کی سختیوں کوبرداشت کیا۔
انبیاء وائمہ معصومین کی راہ پر چلتے ہوئے شہادت کے ذریعے اپنے افکار،جدوجہد اوت اہداف پر اپنے خون کا مہر ثبت کر کے ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے۔